حیدرآباد ۔۱۸؍مئی( پریس نوٹ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سارے
عالموں کے لئے رحمت بن کر رونق افروز ہیں۔حضورؐ کا لطف و کرم سب پر ہے بچوں
پر عنایات بے پایاں اور بے پناہ شفقت آپ کی رحمت کا خاصہ ہے۔ کبھی بچے
سواری شریف پر آگے پیچھے بیٹھے اور کبھی سبطین کریمینؓ دوش اقدس پر راکب
رحمت عالمؐ کی محبت و مہربانیوں کا جلوہ دنیا والوں کو دکھاتے نظر آتے۔
راستہ میں اگر بچے مل جاتے توان کو حضورؐ خود سلام کیا کرتے۔ یہ بات جہاں
رحمت کا اثر انگیز پہلو لئے ہوے ہے وہیں نونہالوں کی تعلیم و تربیت کا
نہایت دلپذیر انداز ہے۔ خدمت اقدس میں جب کوئی چیز یا فصل کا نیا میوہ پیش
کیاجاتا تو حاضرین میں جو سب سے کم عمر بچہ ہوتا پہلے اسے عطا فرماتے۔ بچوں
سے محبت و مہربانی اور شفقت و کرم میں کوئی تخصیص نہ تھی اپنے چہیتے
نواسوں کی طرح تمام بچے سرکار دو عالمؐ کو پیارے تھے آپ کی محبت و عنایت
خاص سے مالا مال ہونے والے خوش نصیبوں میں حضرت عبید اللہ بن عباسؓ کا اسم
مبارک بھی نمایاں طور پر ملتا ہے جو آپ کے چچا زاد بھائی تھے لیکن عمر میں
بہت چھوٹے تھے۔ حضور انورؐ انہیں بہت چاہتے تھے اور انہیں اور ان کے
بھائیوں کو بلانے کے لئے فرمایا کرتے کہ جو میرے پاس پہلے آے گا اسے فلاں
فلاں چیز ملے گی۔چنانچہ حضرت عباس بن عبد المطلبؓ کے فرزندان دوڈتے ہوے
حضورؐ کے پاس آجایا کرتے ان میں اکثر حضرت عبید اللہؓ پہلے پہنچتے اور
سرکارؐ انہیں اپنی ارشاد کی ہوئی چیز سے نوازتے وہ حضور اقدسؐ سے لپٹ جایا
کرتے اور رحمت عالمؐ انہیں چومتے اور دلار فرماتے۔ ڈاکٹر سید محمد حمید
الدین شرفی ڈائریکٹر آئی ہرک نے یکشنبہ ۱۷؍ مئی کو صبح ۹ بجے ’’ایوان تاج
العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل
انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ’۱۱۴۷‘ویں تاریخ اسلام اجلاس میں
احوال انبیاء علیھم السلام کے تحت حضرت سلیمان علیہ السلام کے مقدس حالات
اور ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے ضمن میں صحابی رسولؐ مقبول حضرت عبید
اللہ ابن عباسؓ کے احوال شریف پر مبنی توسیعی لکچر دیا۔ قرا ء ت کلام پاک،
حمد باری تعالیٰ،نعت شہنشاہ کونین ؐ سے اجلاس کا آغاز ہوا۔اہل علم حضرات
اور باذوق سامعین کی کثیر تعداد موجود تھی۔جناب سید محمد علی موسیٰ رضا
قادری حمیدی نے خیر مقدمی خطاب کیا۔ ایک آیت جلیلہ کا تفسیری،ایک حدیث شریف
کا تشریحی اور ایک فقہی مسئلہ کا توضیحی مطالعاتی مواد پیش کیا گیا۔ڈاکٹر
حمیدالدین شرفی نے سلسلہ بیان کوجاری رکھتے ہوے بتایا کہ حضرت عبید اللہؓ
بڑے متقی، پرہیزگار، اعلی صفات کے حامل بزرگ اور نہایت سخی تھے ان کی سخاوت
ضرب المثل تھی۔ ایک سفر میں انہوں نے اپنے غلام کے ساتھ ایک اعرابی کے
مکان میں قیا م کیا جس کے پاس کچھ نہ تھا صرف ایک بکری تھی جس کے دودھ پر
اس اعرابی کی لڑکی کا
گزارہ تھا لیکن اس نے حضرت عبید اللہؓ کی مہمانداری
کے لئے اس بکری کو ذبح کر کے اس کا گوشت بھون کر پیش کر دیا۔ حالاں کہ اس
کی بیوی نے منع کیا تھا لیکن اعرابی نے حق میزبانی پورا کیا۔ حضرت عبید
اللہؓ نے پانچ سو اشرفیاں اسے عنایت فرمادیں اور یہ ارشاد فرمایا کہ ہم نے
اپنے مال کا ایک حصہ دیا ہے جب کہ اعرابی نے بکری کی صورت میں اپنا کل
اثاثہ تواضع میں خرچ دیا تھا۔ اس سے حضرت عبید اللہؓ کی داد و دہش کا
اندازہ ہو سکتا ہے کہ بہ مشکل پانچ درہم کی بکری کے عوض پانچ سو اشرفیاں
عطا فرما دیں۔ حضرت عبید اللہؓ جب اپنے بڑے بھائی حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ
کے ساتھ مدینہ منورہ جایا کرتے تو تمام اہل مدینہ اعتراف کرتے کہ ہم سب سے
عبد اللہؓ کا علم اور عبید اللہؓ کی سخاوت زیادہ ہے۔ حضرت عبید اللہؓ عہد
خلیفہ چہارم امیر المومنین سیدنا علی ابن ابی طالبؓ میں یمن کے حاکم تھے
اور انھیں ۳۶ھ اور ۳۷ھ میں امیر حج بنایا گیا تھا چنانچہ مسلسل ۲ سال آپ نے
لوگوں کو حج کرایا۔ حضرت عبید اللہؓ پہلے پہل روزانہ ایک اونٹ کی قربانی
کرتے تھے بعد میں ہر دن دو اونٹ ذبح کرنے لگے تھے مخلوق خدا کو کھانا
کھلانا اور راحت رسانی کے لئے اپنا مال خرچ کرنا انہیں بڑا مرعوب تھا۔ڈاکٹر
حمید الدین شرفی نے کہا کہ حضرت عبید اللہؓ خاندان رسالتؐ کے رکن رکین تھے
حضرت عباسؓ بن عبد المطلب بن ہاشم والد گرامی تھے ۔ حضرت لبابہ کبریٰ ام
الفضلؓ بنت حارث والدہ اور امام المفسرین حضرت عبد اللہؓ بن عباس بھائی
تھے۔ حضرت عبید اللہؓ کی کنیت ابو محمد تھی انھوں نے رسول اللہؐ کے جمال
پاک کے بار بار دیدار، ارشادات اقدس کی سماعت اور صحبت مبارک سے فیضیاب
ہونے کا شرف پایا۔ کئی احادیث شریف ازبر تھیں۔پہلے اپنے ایک بھائی حضرت قثم
بن عباسؓ کے ساتھ رہتے تھے۔ حضرت علی المرتضیؓ کی شہادت تک یمن پر مسلسل
حاکم رہے۔ یہیں پر ان کے دو بیٹے شہید کر دئے گئے تھے۔ حضرت عبید اللہؓ
اعلیٰ اخلاق کے حامل اور ان تمام خوبیوں سے متصف تھے جو قیامت تک ایک مومن
کامل کی پہچان ہیں۔ بڑے عبادت گزار، نیک دل، ہمدرد، بامروت، شجیع، حوصلہ
مند، سخی اور صبر و شکر کا پیکر تھے۔ حسن ظاہری سے بھی مالا مال تھے۔ دراز
قد، خوبصورت اور وجیہہ شخصیت کے مالک تھے۔عشق الٰہی اور محبت رسولؐ سے
ہمیشہ سرشار، اطاعت حق تعالیٰ اور اتباع رسالت پناہیؐ کا کامل نمونہ تھے۔
حضرت عبید اللہؓ نے طویل عمر پائی سنہ وفات ۵۸ھ مشہور ہے۔ مدینہ منورہ میں
مدفون ہیں۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یمن میں وفات پائی لیکن پہلا قول ہی
راجح ہے۔اجلاس کے اختتام سے قبل بارگاہ رسالتؐ میں سلام تاج العرفاءؒ پیش
کیا گیا ذکر جہری اور دعاے سلامتی پر آئی ہرک کا’۱۱۴۷‘ واں تاریخ اسلام
اجلاس تکمیل پذیر ہوا۔الحاج محمد یوسف حمیدی نے ابتداء میں تعارفی کلمات
کہے اور آخر میں جناب مظہر اکرام حمیدی نے شکریہ ادا کیا۔